fbpx


آج کی دنیا کو ایک ایسی کیفیت کا سامنا ہے جب انسان بیماری کے ساتھ ساتھ اکیلے پن کی اذیت سہنے پر بھی مجبور ہے اور پھر اس پر ستم یہ کہ انسان اپنے پیاروں کی حفاظت کی خاطر خود اپنے آپ کو تنہائی میں قید کر تا ہے۔ ایسے میں ایک سنگین بیماری اس وقت اور زیادہ سنگین بن جاتی ہے جب آپ دیار غیر میں اپنوں سے دور ہوں اور پھر آپ کسی دوسری ایسی زبان سے بھی مکمل طور پر ناآشنا ہوں جس میں بات کر کے آپ اپنی تکلیف دوسروں کو بتا سکیں اور مدد لے سکیں۔

مکہ میں رضاکارانہ ہیلتھ ورکرز کرونا کی مریضہ کی مدد کرتے ہوئے


سلمان الشریف، سعودی عرب میں اس ٹیم کے ممبر ہیں اور رضاکارانہ طور پر ایسے لوگوں کی مدد کرتی ہے ،جو دوسرے ممالک خصوصاً ایشیائی ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں اور سعودی عرب میں مقیم ہیں، مگر عربی یا انگریزی زبان نہیں جانتے اور کرونا کے مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص کی کہانی سلمان الشریف نے سنائی

سلمان الشریف، رضاکارانہ کرونا ہیلتھ ورکر


سلمان الشریف سعودی ریاست کے ان ۱۵۷۰۰۰،افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے مارچ میں شروع ہونے والی’’ ہیلتھ رضاکارانہ اسکیم‘‘ پر دستخط کیے۔اور صرف مکہ مکرمہ میں اب تک ۸۲۸۲ رضاکاروں نے وزارت صحت کی تربیت مکمل کرنے کے بعد کام کا آغاز کردیا ہے۔ ان میں پینتالیس افراد پر مشتمل ایک ایسی ٹیم بھی ہے جو تیرہ سے زائد زبانیں جانتے ہیں ۔جو لوگوں کو مختلف زبانوں میں کرونا سے متعلق معلومات اور مدد فراہم کرتے ہیں۔


سلمان الشریف کا کہنا تھا کہ میں تیس سال کے اس ہندوستانی شخص کی ایک فون کال نہیں بھول سکتا جو مکہ مکرمہ میں تنہا رہتا تھا۔ وہ کرونا کا شکار ہو چکا تھا وہ اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں جانتا تھا اس نے مدد کے لیے متعدد بار کال سینٹر کال کی۔ کئی ناکام کالز کے بعد اس کی کال مجھ سے ملی اور وہ یہ سن کر رونے لگا کہ میں اس سے اردو میں بات کر رہا ہوں وہ خوف کے مارے بار بار کہ رہا تھا میں اپنے گھر والوں سے دور نہیں مرنا چاہتا۔


ڈاکٹر عاصمہ مسواق اس کال سینٹر کو چلا رہی ہیں جہاں مختلف زبانوں میں کرونا کے مریضوں کی کالز موصول کی جاتی ہیں۔یہاں موصول ہونے والی تمام کالوں کو ترجمے کی ضرورت پڑنے پر مرکزی ہاٹ لائن سے ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔


ڈاکٹر صابر جان بھی اس ٹیم کا حصہ ہیں۔ وہ عربی،انگریزی ،فارسی،روسی،ازبک،اردو اور،ترک زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ میں اس بات کا شکرگزار ہوں کہ اپنی صلاحیتوں کو اچھے مقصد کے لئے استعمال کرنے میں کامیاب رہا۔
رضاکار سمیر حسین ، جو عربی اور روہنگیا زبان بولتے ہیں ۔اپنی رضاکارانہ خدمات کا تجربہ بیان کرتے ہوئے آب دیدہ ہو گئے ۔وہ کہتے ہیں جب یہ لوگ ہمارے لیے دعائیں کرتے ہیں تو دلی خوشی ہوتی ہے جو بیان سے باہر ہے ۔مسٹر حسین بھی ان رضاکاروں میں ایک اہم نام ہیں جنہوں نے رمضان کے مہینے میں اپنی خدمات انجام دیں۔

رضاکار سمیر حسین، سعودیہ میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کو کرونا کی آگاہی دیتے ہیں


ان تمام تر خدمات میں ’’ہیلتھ رضاکارانہ اسکیم‘‘ کے تحت ایک اور اہم اقدام موبائل ہیلتھ کلینک ہے۔ جو کرونا کے تناظر میں جدید سہولیات سے مزین ہیں۔ چھے کی تعداد پر مشتمل یہ موبائل کلینکس اس علاقے میں پہنچا دئیے جاتے ہیں جہاں کرونا وبا کا سامنا ہوتا ہے ۔ یہ موبائل کلینک چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں اور ہر کلینک اٹھارہ کے سٹاف پر مشتمل ہے۔


بلاشبہ کرونا کے تناظر میں پیدا ہونے والی مایوس کن صورت حال میں یہ رضاکاروں پر مشتمل ٹیم ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہو رہی ہے اور اس مقصد میں پیش پیش رہنے والے تمام رضاکار کسی ہیرو سے کم نہیں جو دن رات کی پروا کئے بغیر مصیبت کے ماروں کی مدد میں مصروف ہیں۔ رضا کار ٹیم کا حصہ ڈاکٹر صابر جان کا یہ جملہ اس کی سچی لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ


’’جب سے مکہ میں کرونا کی وبا پھیلی ہے میں ایک دن کی بھی رخصت لیے بغیر مسلسل کام کر رہا ہوں ۔ ہر دن شام دو بجے سے شام آٹھ بجے تک ہفتے کے آخر تک کام کرتا ہوں۔‘‘

ڈاکٹر صابر جان، بیک وقت سات زبانوں پر عبور رکھتے ہیں

شاید یہ ان ہی ہیروز کی کوششیں ہیں کے دس ہزار سعودی مقیم اس سال معیاری جرّاحی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے حج کا فریضہ ادا کریں گے۔

کرونا وائرس کے پیش نظر سعودی حکومت مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں چند ہی نمازیوں کو فرض نماز ادا کرنے کی اجازت دیتی ہے
Tagged With:

2 thoughts on “مکہ کے ہیروز

  1. انسانیت کے جزبے سے معمور ان تمام لوگوں کو سلام،،جو مہلک وبا میں مبتلا خوفزدہ لوگوں کے درد بانٹ رہے ہیں انہیں اس وبا سے لڑنے کی ہمت دے رہے ہیں ایک معلوماتی تحریر
  2. اللہ جزائے خیر دے اور اور بہترین انداز میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *