fbpx
Birds

ايک تھی چڑيا، ايک تھا چڑا، چڑيا لائی دال کا دانا، چڑا لايا چاول کا دانا، اس سے کچھڑی پکائی، دونوں نے پيٹ بھر کر کھائی، آپس ميں اتفاق ہو تو ايک ايک دانے کی کچھڑی بھی بہت ہوتی ہے۔

چڑا بيٹھا اونگھ رہا تھا کہ اس کے دل ميں وسوسہ آيا کہ چاول کا دانا بڑا ہوتا ہے، دال کا دانا چھوٹا ہوتا ہے۔ پس دوسرے روز کچھڑی پکی تو چڑے نے کہا اس میں چھپن حصے مجھے دے، چواليس حصے تو لے، اے باگھوان پسند کر يا نا پسند کر ۔ حقائق سے آنکھ مت بند کر ، چڑے نے اپنی چونچ ميں سے چند نکات بھي نکالے، اور بی بی کے آگے ڈالے۔ بی بی حيران ہوئی بلکہ رو رو کر ہلکان ہوئی کہ اس کے ساتھ تو ميرا جنم کا ساتھ تھا ليکن کيا کر سکتی تھی۔

دوسرے دن پھر چڑيا دال کا دانا لائی اور چڑا چاول کا دانا لايا۔ دونوں نے الگ الگ ہنڈيا چڑھائی ، کچھڑی پکائی ، کيا ديکھتے ہیں کہ دو ہی دانے ہيں، چڑے نے چاول کا دانا کھايا، چڑيا نے دال کا دانا اٹھايا ۔ چڑے کو خالی چاول سے پيچش ہوگئی چڑيا کو خالی دال سے قبض ہو گئی۔ دونوں ايک حکيم کے پاس گئے جو ايک بِلا تھا، اس نے دونوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھيرا اور پھيرتا ہی چلا گيا۔
ديکھا تو تھے دو مشت پر

يہ کہانی بہت پرانے زمانے کی ہے۔ آج کل تو چاول ايکسپورٹ ہو جاتا ہے اور دال مہنگی ہے۔ اتنی کہ وہ لڑکياں جو مولوی اسماعيل ميرٹھی کے زمانے ميں دال بگھارا کرتی تھيں۔ آج کل فقط شيخي بگھارتی ہيں۔

(ابن انشا کے مضامین سے انتخاب)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *